ابوبکر ابن علی ، عمر ابن علی اور عثمان بن علی کے ناموں کا فلسفہ
سوال یہ ہے کہ عمر ،عثمان ،ابوبکر نے اتنا ظلم نہیں کیا ہو گا اگر کیا ہوتا تو کم از کم معصومین اپنے بچوں کا نام اسطرح نہیں رکھتے دیکھیں یزید ، معاویہ ان واقعات کے بعد معصومین اپنے بچوں میں کوئی ایسا نام نہیں رکھا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب:دیکھیے! عربوں میں نام رکھنا اور ہمارے نام‌ رکھنے میں فرق ہے ، وہ معنی کو دیکھ کر رکھتے ہیں اور ہم اکثر شخصیات کے ناموں پر رکھتے ہیں ۔
اور اس بات کا سوال کہ ائمہ نے عمر و عثمان و ابوبکر نام رکھا ہے تو عرض کریں گے کہ ائمہ نے آیا نام رکھا بھی ہے یا نہیں ؟ اور یہ بھی نہیں ہے کہ ہمیشہ شخصیات پر نام رکھا جائے ظاہر ہے
عربوں کی اپنی زبان ہے عربی اور اپنی زبان میں نام رکھتے ہیں تو معنی کو دیکھ کر نام رکھتے ہیں جبکہ شخصیات پر بھی نام رکھنا نظر آتا ہے، ہم جب نام رکھتے ہیں تو معنی ہمیں پتہ نہیں ہوتا ہے کسی بڑی شخصیت کے نام پر رکھ لیتے ہیں جس طرح آصف زرداری کی حکومت تھی تو لوگوں نے آصف نام رکھنا شروع کیا تھا اپنے بچوں کا اسی طرح دیگر لوگ یا شخصیات جن سے ہمارے لوگ متاثر ہوتے ہیں ان کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں- اور ہے بھی اچھا کہ لوگ اپنے بچوں کے ناموں کو ائمہ اہلبیت یا چہاردہ معصومین یا دیگر آسماء جن کا حدیث میں ذکر ہے، وہ نام رکھیں- جبکہ عرب اکثر یا بعض اوقات نام رکھتے تھے تو بعض اوقات یا ۔۔۔ معنی کی طرف نگاہ رکھتے تھے جیسے کہ؛
حارث اس نیت سے نام رکھا تھا کہ بڑا ہو کر صاحب مزرعہ بن جائے اور کھیتوں کو آباد کرنے والا بن جائے۔۔۔ تو معنی کو بھی دیکھتے تھے۔
اور یہ سوال کہ ائمہ نے یذید اور معاویہ نام نہیں رکھا ہے تو یقینا معاویہ نہیں رکھا ہے کہ اس کا معنی ہی بد ہے معاویہ کا معنی بنتا ہے کتیا ، جبکہ یذید کا نام کی بات کی جائے تو ہاں ائمہ نے نام نہیں رکھے لیکن ائمہ کے کئی اصحاب کا نام یذید تھا ائمہ بھی اسی نام سے پکارتے تھے اور روکا بھی نہیں ہے اس کو علم فقہ تقریر معصوم کہتے ہیں قول معصوم کی طرح تقریر معصوم بھی حجت ہوتی ہے ، ائمہ کے اصحاب میں عمر عثمان ، اور یذید بھی نام موجود تھے حتی شمر نام کا صحابی بھی تھا ، امام نے کبھی روکا بھی نہیں اس کو کہ اپنا نام بدل دو ، حتی رسول اللہ کا ابدی دشمن ابوجہل کا نام عمرو تھا اور امام مجتبی ع نے بھی ایک بیٹے کا نام عمرو رکھا لیکن کیونکہ عرض کیا کہ عرب معنی کو دیکھ کر زیادہ تر رکھتے تھے ، تفصیلات مندرجہ ذیل تحریر میں آئے گی۔

ابو الفرج اصفهانی اپنی کتاب میں:

قتل عبد الله بن علی بن أبی طالب، وهو ابن خمس وعشرین سنة ولا عقب له.

عبد الله بن علی 25 سالہ تھے کربلا میں شہید ہوئے۔

الاصفهانی، أبو الفرج علی بن الحسین (متوفای356)، مقاتل الطالبیین، ج 1، ص 22

یہ وہ دور تھا جب امیرالمومنین نے خلفا پر سخت تنقید کی ہے ، اس میں بچہ پیدا ہوا جس کو عموما عثمان بن علی سے یاد کیا جاتا ہے ، تاریخ میں اس کا نام عبد اللہ ہے، ابو الفرج اصفہانی نے کتاب میں ذکر کیا ہے۔

1۔ ائمہ کا بچوں کے نام عمر رکھنا:
تاریخ میں یہ بات ثبوت کے ساتھ لکھی ہوئی ہے کہ عمر کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کے بچوں کا نام اپنے نام پر رکھتا تھا ، تاکہ اپنے نام والوں کی کثرت ہو۔

بلاذری نے انساب الأشراف میں:

وکان عمر بن الخطاب سمّی عمر بن علیّ بإسمه.

عمر بن خطاب، علی کے بیٹے کا نام اپنے نام کہ پر عمر رکھا۔

البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر (متوفای279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 297

زہبی نے امیرالمومنین کے بیٹے کا نام عمر ہونے کے بارے میں بات کی ہے۔
ذهبی نے سیر اعلام النبلاء میں:

ومولده فی أیام عمر. فعمر سماه باسمه.

وہ عمر کے زمانہ میں پیدا ہوگئے تھے ، تو عمر نے اس کا نام اپنے نام پر رکھا۔

الذهبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای748هـ)، سیر أعلام النبلاء، ج 4، ص 134، تحقیق: شعیب الأرناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

امیر المومنین نے کچھ اور نام رکھا تھا جبکہ حکومت نے نام تبدیل کیا اور لوگ بھی وہی لینے لگے۔ عمر نے فقط امیرالمومنین کے بیٹوں کا نام نہیں بدلا بلکہ کئی لوگوں کے نام تاریخ میں آئے ہیں کہ عمر نے نام تبدیل کرکے اپنے نام پر اس کا نام رکھا ان میں سے کچھ کے نام زکر کرتے ہیں۔

1. إبراهیم بن الحارث کو عبد الرحمن.

عبد الرحمن بن الحارث.... کان أبوه سماه إبراهیم فغیّر عمر اسمه.

اس کے والد نے ان کا نام ابراہیم رکھا تھا جبکہ عمر نے نام تبدیل کرکے عمر رکھا۔

العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل (متوفای852هـ)، الإصابة فی تمییز الصحابة، ج 5، ص 29، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل - بیروت، الطبعة: الأولی، 1412 - 1992.

2. الأجدع أبی مسروق کو عبد الرحمن.

الأجدع بن مالک بن أمیة الهمدانی الوادعی... فسماه عمر عبد الرحمن.

عمر بن الخطاب، اجدع بن مالک کا نام تبدیل کرکے عبد الرحمان رکھا۔

العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل (متوفای852هـ)، الإصابة فی تمییز الصحابة، ج 1، ص 186، رقم: 425، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل - بیروت، الطبعة: الأولی، 1412 - 1992.

4 ثعلبة بن سعد کو معلی:

وکان إسم المعلی ثعلبة، فسماه عمر بن الخطاب المعلی.

معلی کا نام ثعلبہ تھا،عمر نے اس کا نام معلی رکھا ۔

الصحاری العوتبی، أبو المنذر سلمة بن مسلم بن إبراهیم (متوفای: 511هـ)، الأنساب، ج 1، ص 250.

دوسری بات:
ابن حجر نے الاصابه میں ایسے اصحاب جن کا نام عمر تھا کو لکھا ہے یعنی عادت عامہ تھی کہ نام اور کثرت سے رکھتے تھے یعنی اگر عمر نام بھی ہو تو عادت عامہ تھی بعد میں اس کے وضاحت ہوگی۔

1. عمر بن الحکم السلمی؛ 2. عمر بن الحکم البهزی؛ 3 . عمر بن سعد ابوکبشة الأنماری؛ 4. عمر بن سعید بن مالک؛ 5. عمر بن سفیان بن عبد الأسد؛ 6. عمر بن ابوسلمة بن عبد الأسد؛ 7. عمر بن عکرمة بن ابوجهل؛ 8. عمر بن عمرو اللیثی؛ 9. عمر بن عمیر بن عدی؛ 10. عمر بن عمیر غیر منسوب؛ 11. عمر بن عوف النخعی؛ 12. عمر بن لاحق؛ 13. عمر بن مالک؛ 14. عمر بن معاویة الغاضری؛ 15. عمر بن وهب الثقفی؛ 16. عمر بن یزید الکعبی؛ 17. عمر الأسلمی؛ 18. عمر الجمعی؛ 19. عمر الخثعمی؛ 20. عمر الیمانی. 21. عمر بن الخطاب.

العسقلانی، أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل الشافعی، الإصابة فی تمییز الصحابة، ج4، ص587 ـ 597، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل - بیروت، الطبعة: الأولی، 1412 - 1992

یہ سارے نام خلیفہ سے محبت کی وجہ سے نہیں تھے۔

عثمان نام رکھنا:

إنّما سمّیته بإسم أخی عثمان بن مظعون.

یقینا میں نے ان کا نام میرے بھائی عثمان بن مظعون کے نام پر رکھا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دیگر ابوبکر و عمر جیسے ناموں کی طرح نہیں تھا نامِ عثمان بلکہ خود امیر المومنین نے جناب عثمان ابن مظعون کے نام کہ رکھا تھا۔
الاصفهانی، أبو الفرج علی بن الحسین (متوفای356)، مقاتل الطالبیین، ج 1، ص 23.

اور عثمان نام ابن حجر عسقلانی نے چھبںیس کے قریب اصحاب کا نام عثمان بتایا ہے آیا وہ سارے عثمان سے محبت کی وجہ سے تھے نہیں۔


1. عثمان بن ابوجهم الأسلمی؛ 2. عثمان بن حکیم بن ابوالأوقص؛ 3. عثمان بن حمید بن زهیر بن الحارث؛ 4. عثمان بن حنیف بالمهملة؛ 5. عثمان بن ربیعة بن أهبان؛ 6. عثمان بن ربیعة الثقفی؛ 7. عثمان بن سعید بن أحمر؛ 8. عثمان بن شماس بن الشرید؛ 9. عثمان بن طلحة بن ابوطلحة؛ 10. عثمان بن ابوالعاص؛ 11. عثمان بن عامر بن عمرو؛ 12. عثمان بن عامر بن معتب؛ 13. عثمان بن عبد غنم؛ 14. عثمان بن عبید الله بن عثمان؛ 15. عثمان بن عثمان بن الشرید؛ 16. عثمان بن عثمان الثقفی؛ 17. عثمان بن عمرو بن رفاعة؛ 18. عثمان بن عمرو الأنصاری؛ 19. عثمان بن عمرو بن الجموح؛ 20. عثمان بن قیس بن ابوالعاص؛ 21. عثمان بن مظعون؛ 22. عثمان بن معاذ بن عثمان؛ 23. عثمان بن نوفل زعم؛ 24 . عثمان بن وهب المخزومی؛ 25. عثمان الجهنی؛ 26. عثمان بن عفان۔

العسقلانی، أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل الشافعی، الإصابة فی تمییز الصحابة، ج 4، ص 447 ـ 463، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل - بیروت، الطبعة: الأولی، 1412 - 1992


ائمہ کے اصحاب جن کا نام عمر تھا:
عمر بن عبد اللّه ثقفی، عمر بن قیس، عمر بن معمر اصحاب امام باقر علیه السلام میں سے۔ اور عمر بن أبان، عمر بن أبان کلبی، عمر بن ابوحفص، عمر بن ابوشعبة، عمر بن اذینة، عمر بن براء، عمر بن حفص، عمر بن حنظلة، عمر بن سلمة و... اصحاب امام صادق علیه السلام سے تھے ۔

عثمان نام کے اصحاب:
عثمان اعمی بصری، عثمان جبلة و عثمان بن زیاد اصحاب امام باقر علیه السلام سے، اور عثمان اصبهانی، عثمان بن یزید، عثمان نوا، اصحاب امام صادق علیه السلام سے ۔

یذید نام کے اصحاب:
یزید بن حاتم صحابی امام سجاد علیه السلام. یزید بن عبد الملک، یزید صائغ، یزید کناسی صحابی امام باقر علیه السلام؛ یزید الشعر، یزید بن خلیفة، یزید بن خلیل، یزید بن عمر بن طلحة، یزید بن فرقد، یزید مولی حکم صحابی امام صادق علیه السلام۔
جبکہ یہ جاہل نہیں تھے صحابی اور ایک علم تھے ۔

الأردبیلی الغروی، محمد بن علی (متوفای1101هـ)، جامع الرواة وإزاحة الاشتباهات عن الطرق والاسناد، ج 1 ص 402، ناشر: مکتبة المحمدی۔
آیا یہ یذید ، شمر اور عمرو نام رکھنا ان لوگوں سے محبت کی علامت ہے ؟ ہر گز ایسا نہیں ہے ۔
بچوں کا نام اس شخص سے محبت کی وجہ سے نہیں رکھتے اگر ایسا ہوتا تو سارے اصحاب اپنے بچوں کا نام ، نامِ نامیِ عظیمِ "محمد" رکھتے ۔

شیخ مفید کے نقل کے مطابق امام مجتبی علیہ اسلام کے ایک بیٹے کا نام عمرو تھا یہ تو عمرو بن عبدود یا ابوجہل جس کا نام عمرو تھا اس کے نام کے برابر ہو گیا۔
الشیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبی عبد الله العکبری، البغدادی (متوفای413 هـ)، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج 2، ص 20، باب ذکر ولد الحسن بن علی علیهما ، تحقیق: مؤسسة آل البیت علیهم السلام لتحقیق التراث، ناشر: دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع - بیروت - لبنان، الطبعة: الثانیة، 1414هـ - 1993 م.

صحیح مسلم میں عمر کا قول کہ امیر المومنین عمر کو خائن ، کذاب، فراڈ اور گناہ کار سمجھتے تھے یہ خود عمر نے جناب عباس و علی ع سے مخاطب ہو کر کہا‌۔
۔۔۔وَأَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلی الله علیه وسلم- وَوَلِیُّ أَبِی بَکْرٍ فَرَأَیْتُمَانِی کَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.

اور میں رسول اللہ و ابوبکر کا جانشین بن گیا تو تم دونوں مجھے کاذب ، گناہ کار، فراڈ، اور خیانت کار کہتے رہے۔
النیسابوری، مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری (متوفای261هـ)، صحیح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، کِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ، بَاب حُکْمِ الْفَیْءِ، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت.

ابوبکر علی ع کی نظر میں ڈکٹیٹر :
وَلَکِنَّکَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَیْنَا بِالْأَمْرِ وَکُنَّا نَرَی لِقَرَابَتِنَا من رسول اللَّهِ صلی الله علیه وسلم نَصِیبًا.

اور تم ہم پر زور و جبر سے مسلط ہوگیا حالانکہ رسول اللہ ص سے قرابت کی وجہ سے ہم خود اس کے سزاوار سمجھتے تھے۔

البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل أبو عبدالله (متوفای256هـ)، صحیح البخاری ج 4، ص 1549، ح3998، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م.

ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین عمر کے چہرہ کو بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے؛
فَأَرْسَلَ إلی أبی بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا ولا یَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَکَ کَرَاهِیَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ.

البخاری الجعفی، محمد بن إسماعیل أبو عبدالله (متوفای256هـ)، صحیح البخاری ج 4، ص 1549، ح3998، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة:


آیا اب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ امیرالمومنین شیخین کو اس نگاہ سے دیکھتے تھے پھر بھی ان سے محبت ہو اور ان کے نام پر بچوں کے نام رکھے !؟ جن کا چہرہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے جن کو خیانت کار، گناہ کار ، و فراڈ و جابر و ظالم سمجھتے ہوں اور کہتے بھی ہوں پھر بھی انہی کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں؟ یہ بات بعید از عقل ہے جو ادعا اہلسنت کے بعض لوگ کرتے ہیں۔

تحریر:غلام رسول ولایتی روندو بلامیک