برصغیر میں ماہر ادیب شیعہ علما و مشاہیر کا تذکرہ:  جیسا کہ برصغیر میں نادر ادبی خدمات کے عنوان سے ذکر ہوا ہے کہ برصغیر میں شیعہ علماء نے عجوبہ روزگار خدمات انجام دی ہیں لیکن ان سب کی تاریخ اور تدوین کا کام نہیں ہوا تو بہت کچھ مرور ایام کے ساتھ نسیان کا شکار ہوگیا ہے لیکن بہت سے شیعہ علماء کرام کی ادبی مہارتوں میں شہرت اس کا باعث ہے کہ ان کا نام کئی واسطوں تک یاد کیا جاتا ہے، سابقہ مستقل تحقیقات اور اردو تراجم و شروحات کے ضمن میں بہت سے ماہرین و شیعہ ادباء کا ذکر ہوچکا ہے یہاں ان بعض مشاہیر کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا نام سابقہ فہرستوں میں شامل نہیں ہوسکا: استاد العلماء علامہ محمد باقر چکڑالوی نجفی پاکستان میں شیعہ مدارس علمی کی تاریخ میں جس ذات کو متقدم شمار کیا گیا اور استاد العلماء کا لقب انہیں کے نام ہوا انہیں علامہ محمد باقر نجفی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سرزمین میانوالی کے علاقہ چکڑالہ سے تعلق تھا حوزہ علمیہ لکھنو سے فارغ التحصیل تھے اور نجف اشرف سے اعلی تعلیم یافتہ تھے بیک وقت کئی علوم و فنون اسلامی میں مہارت رکھتے تھے ۔ جن محقق علماء نے ان سے استفادہ کیا اور ان کی یاد داشتوں میں ان کا ذکر ہوا ہے انہوں نے خاص کر ان کی ادبی مہارتوں کا ذکر کیا ہے خاص کر وہ دفاع مذہب شیعہ کی ابحاث میں فعال شرکت فرماتے تھے اور مخالفین کے ساتھ ادبی خط و کتابت بھی فرماتے تھے ۔ان کی عربی نظم﴿ الحق مع حیدر کرار ﴾میں ذکر ہے ۔ علامہ شیر علی شاہ نقوی علامہ اٹک کے علمی سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے اور علوم ادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے جن افراد نے ان سے علمی استفادہ کیا یا ادبیات میں ان فنی شناخت رکھتے ہوئے ان سے علمی گفتگو کی وہ ان کی مہارتوں کے قدر دان نظر آتے ہیں جن میں خاص کر ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد شامل ہے ۔ علامہ مفتی جعفر حسین علامہ مفتی پاکستان میں شیعہ قوم کے قائد اور بزرگ عالم اور ادیب شمار ہوتے ہیں انہوں نے اپنی علمی و ادبی خدمات میں سیرت امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ کا ادبی ترین ترجمہ اور حاشیہ پیش کیا اور ان معارف اہل بیت ع کی کتابوں کو برصغیر میں بہترین انداز میں نشر عام کیا ہے ۔جب بھی ان علمی کتابوں کے تراجم اور حواشی علمیہ پر کام ہوتا ہے تو ان کے ادبی کاموں کو سرفہرست رکھا جاتا ہے اور ان کی سوانح حیات﴿ سنہری حروف ﴾میں ان کے عربی قصائد اور ادبی عبارتوں کے دیگر شواہد بھی ذکرہوئے ہیں ۔ حوزہ علمیہ لکھنو کے شیعہ ادباء حوزہ علمیہ لکھنو شیعہ حوزات اور علمی مراکز میں ممتاز مقام رکھتا ہے ۔جس طرح حرمین شریفین کے بعد کوفہ، بغداد، نجف، حلہ ، قم، اصفہان اور لبنان کو علمی مرکزیت رہی اور وہاں علمی اور ادبی خدمات شیعہ علماء نے پیش کیں اسی طرح حوزہ علمیہ لکھنو شیعہ قوم کے بڑے علمی مراکز میں شمار ہوتا ہے اور اس میں جلیل القدر علماء و ادباء نے علمی اور ادبی خدمات انجام دیں ۔ان کی تالیفات و مکتوب میراث ان کے بلند ادبی مقام کا ثبوت ہیں ۔ ان کے خطوط جو انہوں نے علماء و مجتہدین نجف و قم سے تحریر فرمائے اور ان کی عربی و فارسی کتب میں بلند مرتبہ ادبیات پائی جاتی ہےجن میں سید دلدار علی متوفی 1235 اور ان کا خاندار اجتہاد اور ان کےبلاواسطہ اور بالواسطہ شاگردوں کی ادبیات کا تذکرہ ان کے سوانح حیات کی کتابوں میں موجود ہے ۔ان میں سے بہت سے علماء کے دیوان اور ادبی شاہکار بھی ذکر ہوئے ہیں جن کا تذکرہ مطلع انوار اور شیعہ علماء کے تذکروں میں تفصیل کے ساتھ کیاگیا ہے.