معصومین ؑکے زمانے میں اجتہاد اور فقاہت کی ادلہ معصومینؑ کے زمانے میں اجتہاد اور فقاہت کے موجود ہونے کی بہت سی ادلہ ہیں جن کو مختصر طور پر ذیل میں ذکر کیا جائے گا : 1۔معصومینؑ کااپنے اصحاب کو فتوی دینے کا حکم دینا۔ معصومین ؑکی تاریخ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ معصومینؑ نے اپنے ان اصحاب کو جو ان کی خدمت میں سالہا سال تک علم حاصل کرنے کے لیےحاضر ہوتے تھے انہیں احکام شرعیہ کو مصادر سے استنباط کرنے کی ترغیب فرمائی اور ان کو فتوی دینے کی کی تاکید کی اور اس طرح انہیں اجتہاد کرنے کا حکم دیا اور لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا مقدمہ فراہم کیا، یہاں ان روایات کو ذکر کیا جاتا ہے جن میں معصومینؑ نے اصحاب کو فتوی دینے کا حکم دیا اور ان کو احکام شرعی بیان کرنے اور بحث کرنے کی تشویق فرمائی ہے : 1)۔ابان بن تغلب کو فتوی دینے کا حکم حَمْدَوَیْهِ،عن یَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیْرٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ مُسْکَانَ، عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ، قَالَ، قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) إِنِّی أَقْعُدُ فِی الْمَسْجِدِ فَیَجِی‌ءُ النَّاسُ فَیَسْأَلُونِّی، فَإِنْ لَمْ أُجِبْهُمْ لَمْ یَقْبَلُوا مِنِّی وَ أَکْرَهُ أَنْ أُجِیبَهُمْ بِقَوْلِکُمْ وَ مَا جَاءَ عَنْکُمْ! فَقَالَ لِیَ: انْظُرْ مَا عَلِمْتَ أَنَّهُ مِنْ قَوْلِهِمْ فَأَخْبِرْهُمْ بِذَلِکَ. ابان بن تغلب کابیان ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے عرض کی کہ میں مسجد میں بیٹھتا ہوں تو لوگ آکر مجھ سے سوال کرتے ہیں اگر میں ان کو جواب نہ دوں تو وہ راضی نہیں ہوتے اور میں ڈرتا ہوں کہ آپؑ کے قول کے ذریعے جواب دوں ۔ امامؑ نے فرمایا : جو تجھے ان کے اقوال یاد ہیں ان میں غور کر اور ان کے مطابق جواب دے ۔ حَمْدَوَیْهِ،عن یَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیْرٍ، عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ، قَالَ، قَالَ لِی أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع) جَالِسْ أَهْلَ الْمَدِینَةِ فَإِنِّی أُحِبُّ‌أَنْ یَرَوْا فِی شِیعَتِنَا مِثْلَکَ . ابان بن تغلب کابیان ہے کہ امام صادقؑ نے مجھ سے فرمایا:اہل مدینہ کی مجلس میں بیٹھو کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ وہ ہمارے شیعوں میں تجھ جیسے افراد کو دیکھ لیں ۔ یہ ابان وہ جلیل القدر صحابی اور عظیم المنزلت فقیہ اور مجتہد ہے کہ اس کی موت نے امام صادق ؑکو دلی طور پر غمگین اور رنجیدہ فرمایا جیسا کہ روایت میں ہے: مُحَمَّدُ بْنُ قُولَوَیْهِ،عن سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّیُّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، عَنْ جَمِیلٍ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ، ذَکَرْنَا أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ عِنْدَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع)، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ أَوْجَعَ قَلْبِی مَوْتُ أَبَانٍ . جمیل کا بیان ہے کہ ہم نے امام صادقؑ کے پاس ابان بن تغلب کا ذکر کیا تو آپ ؑنے فرمایا:خدا اس پر رحم فرمائے ، خدا کی قسم ! ابان کی موت نے میرے دل کو رلا دیا ہے ۔ 2)۔معاذ بن مسلم نحوی کے فتوی دینے کی تائید اور تاکید حَمْدَوَیْهِ وَ إِبْرَاهِیمُ ابْنَا نُصَیْرٍ،عن یَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ، عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیْرٍ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِیهِ مُعَاذِ بْنِ مُسْلِمٍ النَّحْوِیِّ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ لِی: بَلَغَنِی أَنَّکَ تَقْعُدُ فِی الْجَامِعِ فَتُفْتِی النَّاسَ! قَالَ، قُلْتُ: نَعَمْ وَ قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ ذَلِکَ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ، إِنِّی أَقْعُدُ فِی الْمَسْجِدِ فَیَجِی‌ءُ الرَّجُلُ یَسْأَلُنِی عَنِ الشَّیْ‌ءِ فَإِذَا عَرَفْتُهُ بِالْخِلَافِ لَکُمْ 

---------------

  ١۔رجال کشی ، ح602-603۔ 

٢۔سابقہ حوالہ ح601۔ 

أَخْبَرْتُهُ بِمَا یَفْعَلُونَ، وَ یَجِی‌ءُ الرَّجُلُ أَعْرِفُهُ بِحُبِّکُمْ أَوْ مَوَدَّتِکُمْ فَأُخْبِرُهُ بِمَا جَاءَ عَنْکُمْ وَ یَجِی‌ءُ الرَّجُلُ لَا أَعْرِفُهُ وَ لَا أَدْرِی مَنْ هُوَ فَأَقُولُ جَاءَ عَنْ فُلَانٍ کَذَا وَ جَاءَ عَنْ فُلَانٍ کَذَا فَأُدْخِلُ قَوْلَکُمْ فِیمَا بَیْنَ ذَلِکَ، قَالَ، فَقَالَ لِی: اصْنَعْ کَذَا فَإِنِّی کَذَا أَصْنَعُ . حسین بن معاذ نے اپنے باپ معاذ بن مسلم نحوی سے نقل کیا کہ امام صادقؑ نے مجھ سے فرمایا : مجھے خبر ملی ہے کہ تم جامع مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی دیتے ہو۔ میں نے عرض کی:ہاں ،مولا! میں چاہتاتھا کہ آپ سے الوداع کرنے سے پہلے اس کے متعلق سوال کروں کہ میں مسجد میں بیٹھتا ہوں اور لوگ مجھ سے آکر سوال کرتے ہیں اگر مجھے علم ہو کہ آپ حضرات کا مخالف ہے تو میں اسے ایسا جواب دیتا ہوں جو وہ لوگ قائل ہیں اور اگرمجھے علم ہو کہ وہ آپ حضرات سے محبت رکھتا ہے تو میں اسے ایسا جواب دیتا ہوں جو آپ اہل بیتؑ سے منقول ہوتا ہے اور اگر کوئی ایسا شخص آئے جس کے متعلق مجھے معلوم نہ ہو کہ وہ کون اور کیسا ہے ؟ تو میں کہتا ہوں کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں نے یہ کہا ہے اور انہی اقوال میں آپ کا قول بھی بیان کردیتاہوں۔ امام ؑنے فرمایا: ایسے ہی کیا کرو ،میں میں بھی اسی طرح کرتا ہوں ۔ 3)۔ابو علی عبدالرحمن بن حجاج کے بحث کرنے کی تائید أَبُو الْقَاسِمِ نَصْرُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَجَّاجِ شَهِدَ لَهُ أَبُو الْحَسَنِ (ع) بِالْجَنَّةِ وَ کَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع) یَقُولُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ کَلِّمْ أَهْلَ الْمَدِینَةِ فَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ یُرَى فِی رِجَالِ الشِّیعَةِ مِثْلُکَ . عبدالرحمن بن حجاج نے کہا کہ امام کاظمؑ نے اس کے لیے جنت کی گواہی دی اور امام صادق ؑاس سے فرماتے تھے :اے

-----------------

 ١ ۔حوالہ سابقہ ح470۔ 

٢.حوالہ سابقہ ح830۔ 

عبدالرحمن! تم اہل مدینہ سے بحث کروکیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ شیعوں میں تجھ جیسے افراد کو دیکھا جائے ۔ شیخ مفید نے الارشاد میں اسے امام صادق ؑکے زمانے کے صالح فقہاء میں شمار کیا ہے جنہوں نے امام کاظمؑ کے بارے میں نصّ امامت کو نقل کیا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فقیہ کو لوگوں سے بات کرنے کاحکم انہیں احکام شرعی بیان کے بارے میں ہے۔ 4)۔محمد بن حکیم کے بحث کرنے پر اظہار خوشی حَمْدَوَیْهِ،عن مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَى،عن یُونُسُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمَّادٍ، قَالَ کَانَ أَبُو الْحَسَنِ (ع) یَأْمُرُ مُحَمَّدَ بْنَ حَکِیمٍ أَنْ یُجَالِسَ أَهْلَ الْمَدِینَةِ فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ أَنْ یُکَلِّمَهُمْ وَ یُخَاصِمَهُمْ! حَتَّى کَلَّمَهُمْ فِی صَاحِبِ الْقَبْرِ، فَکَانَ إِذَا انْصَرَفَ إِلَیْهِ، قَالَ لَهُ: مَا قُلْتُ لَهُمْ وَ مَا قَالُوا لَکَ وَ یَرْضَى بِذَلِکَ مِنْهُ. مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیدَ الْقُمِّیُّ، قَالَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ یَحْیَى، عَنْ إِبْرَاهِیمَ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ یَحْیَى بْنِ عِمْرَانَ الْهَمْدَانِیِّ، عَنْ یُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَکِیمٍ، وَ قَدْ کَانَ أَبُو الْحَسَنِ (ع) وَ ذَکَرَ مِثْلَهُ . حماد کا بیان ہے کہ امام کاظمؑ محمد بن حکیم کو مسجد نبی اکرم ﷺمیں اہل مدینہ کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیتے تھے اور ان سے بحث کرنے کا امر فرماتے تھے یہاں تک کہ وہ ان سے صاحب قبر کے متعلق مناظرے کرتے اور جب وہ لوٹ کرآتے تو امامؑ کے سامنے ان کی باتیں اور اپنے استدلال پیش کیا کرتے تو امامؑ اس سے راضی ہوتے تھے۔ اس روایت میں اسے ہر قسم کی بحث کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو احکام شرعی کے استنباط کو بھی شامل ہے ۔ 

-------------------

١ ۔الارشاد شیخ مفید ،ص288 ط موسسہ اعلمی بیروت 1979ء۔ 

٢ ۔رجال کشی ح845

2.۔علم کے بغیر فتوی دینے کے حرام ہونے کا مفہوم معصومین ؑکے زمانے میں اجتہاد اور فقاہت کے موجود ہونے کی یقینی دلیل وہ متواتر روایات ہیں جن میں علم و یقین کے بغیر فتوی دینے کو حرام قرار دیا گیا ہے ان کا مفہوم یہ ہے کہ علم کے ساتھ فتوی دینا جائز ہے جب انسان معتبر شرعی ذرائع سے استنباط کرکے فتوی دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ان میں سے چند روایات کو ذکر کیا جاتا ہےجو امام صادقین ؑسے منقول ہیں: 1۔ابن محبوب، عن ابن رئاب، عن أبی عبیدة، عن أبی جعفرعلیه السلام قال: من أفتى الناس بغیر علم ولا هدى من الله لعنته ملائکة الرحمة وملائکة العذاب، ولحقه وزر من عمل بفتیاه. ابو عبیدہ نے امام باقر ؑسے نقل کیا ،فرمایا: جو شخص لوگوں کو علم و ہدایت خدا کے بغیر فتوی دے اس پر رحمت و عذاب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور جتنے لوگ اس کے غلط نظریئے پر عمل کریں گے ان کا گناہ اس کے ذمہ ہے ۔ 2۔برقی عن ابن فضال، عن ثعلبة، عن ابن الحجاج قال: سألت أبا عبد الله علیه السلام عن مجالسة أصحاب الرأى فقال: جالسهم وإیاک وخصلتین هلک فیهما الرجال: أن تدین بشئ من رأیک، أو تفتی الناس بغیر علم . ابن حجاج کا بیان ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے قیاس کرنے والوں کے پاس بیٹھنے کے بارے میں پوچھا؟ فرمایا : ان کے ساتھ بیٹھو مگر دو باتوں سے پرہیز کرنا کہ ان کی وجہ سے سے بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں : 1۔کسی چیز کو اپنی رائے کی وجہ سے دین نہ بنالینا۔ 2۔لوگوں کو بغیر علم کے فتوی نہ دینا ۔

------------

  ١۔وسائل الشیعہ 18ص9و 161،کافی 1ص42 بحارالانوار 2ص118،ح23۔

٢ ۔بحار الانوار ج2ص118ح22۔ 

3.۔علی بن حسان الواسطی والبزنطی، عن درست، عن زرارة قال: قلت لأبی عبد الله علیه السلام: ما حق الله على خلقه ؟ قال: حق الله على خلقه أن یقولوا ما یعلمون ویکفوا عما لا یعلمون،فإذا فعلوا ذلک فقد والله أدوا إلیه حقه . زرارہ کا بیان ہےکہ میں نے امام صادق ؑسے عرض کی: خدا کااپنی مخلوق پر کیا حق ہے ؟ امام ؑنے فرمایا : خدا کا اپنی مخلوق پر یہ حق ہے کہ وہ ایسی بات کریں جو وہ جانتے ہوں اور جو نہیں جانتے اس سے خاموش رہیں پس جب وہ ایسا کرلیں گے تو خدا کی قسم ! انہوں نے خدا کا حق اسے ادا کردیا ۔ 4۔الصدوق عن العجلی، عن ابن زکریا القطان، عن ابن حبیب، عن ابن بهلول، عن أبیه، عن محمد بن سنان، عن حمزة بن حمران قال: سمعت أبا عبد الله علیه السلام یقول: من استأکل بعلمه افتقر، فقلت له: جعلت فداک إن فی شیعتک وموالیک قوما یتحملون علومکم، ویبثونها فی شیعتکم فلا یعدمون على ذلک منهم البر والصلة والإکرام، فقال علیه السلام: لیس اولئک بمستأکلین، إنما المستأکل بعلمه الذی یفتی بغیر علم ولا هدى من الله عز وجل لیبطل به الحقوق طمعا فی حطام الدنیا . حمزہ بن حمران نے امام صادقؑ سے روایت کی فرمایا: جس نے اپنے علم کے ذریعے مال کمایا وہ فقیر ہوجائے گا ۔ میں نے عرض کی : میں آپؑ پر قربان جاوں:آپ ؑکے شیعوں اور موالیوں میں ایک گروہ ہے جو آپ ؑکے علوم کو سیکھتا ہے اور انہیں آپکے شیعوں میں پھیلاتا ہے لیکن ان سے نیکی ،صلہ رحمی اور عزت و اکرم ختم نہیں ہوتا۔

---------

١.بحار الانوار ،ج2ص118 ح20، از محاسن برقی۔ 

٢ ۔وسائل الشیعہ 18ص102 ،بحار الانوار 2ص117۔ 

آپؑ نے فرمایا : یہ علم کے ذریعے روزی کمانے والے نہیں ہیں، بے شک علم کے ذریعے روزی کمانے والے وہ لوگ ہیں جو علم اورخدائی ہدایت کے بغیر فتوی دیتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ حقوق کو پامال کرتے ہیں اور ان کی غرض دنیا کے سکّے ہوتے ہیں ۔ 5۔قال الصادق علیه السلام: لا تحل الفتیا لمن لا یستفتی من الله عز وجل بصفاء سره وإخلاص عمله وعلانیته وبرهان من ربه فی کل حال، لأن من أفتى فقد حکم، والحکم لا یصح إلا بإذن من الله وبرهانه ۔ امام صادقؑ سے منقول ہے:اس شخص کے لیے فتوی دینا حلال نہیں جوہر حال میں خدا سے صفائے باطن ،اخلاص عمل اور برہان الہی کے ذریعے سے فتوی طلب نہ کرے کیونکہ جو کوئی فتوی دے اس نے حکم دیا ہے جبکہ بغیر اذن وبرہان الہی کے حکم دینا صحیح نہیں ہے ۔ 6۔عن محمد العطار، عن أحمد وعبد الله ابنی محمد بن عیسى، عن علی بن الحکم، عن ابن عمیرة، عن مفضل بن یزید، قال: قال أبو عبد الله علیه السلام: أنهاک عن خصلتین فیهما هلک الرجال: أن تدین الله بالباطل، وتفتی الناس بما لا تعلم . مفضل بن مزید کابیان ہے کہ امام صادق ؑنے مجھ سے فرمایا : تجھے دو صفات سے روکتا ہوں کہ ان میں لوگوں کی ہلاکت ہے : 1۔تجھے روکتا ہوں کہ تو باطل طریقے سے دینداری کرے ۔ 2۔اور لوگوں کو بغیر علم کے فتوی دے۔ 

------------------

١ ۔بحارالانوار 2ص120،عنایۃ الاصول 6ص233۔

٢ ۔کافی ،1ص42، بحارالانوار 2ص114

ایسی روایات معصومینؑ سے بہت زیادہ منقول ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احکام شرعیہ کے معتبر منابع سے علم اور آگاہی حاصل کرکے فتوی دینا جائز ہے ان سے ائمہ معصومینؑ کے زمانے میں اجتہاد و فقاہت کے موجود ہونے کا یقین ہوتا ہے ۔ محقق خوئی فرماتے ہیں: جن روایات میں قیاس و استحسان وغیرہ کے ذریعے فتوی دینے سے روکا گیا ہے وہ مفہوم کے ذریعے دلالت کرتی ہیں کہ کتاب و سنت اور راہ حق کوچھوڑ کر فتوی دینا جائز نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ جائز طریقے سے فتوی دیا جائے اورا س سے بالملازمہ ثابت ہوتا ہے کہ فتوے کو قبول کرنا واجب ہے جب مجتہد کتاب و سنت کی روشنی میں فتوی دے ۔ 

----------------- 

١۔القول السدید فی الاجتہاد و التقلید ص29