تاریخ علم نحو اور قوم شیعہ کا افتخار: جس طرح آل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرنے والے اور انکی تعلیمات کو حرزِ جان بنانے والوں نے تمام علوم اسلامیہ میں اپنے نرالے ابتکارات اوراچھوتے اجتہادات پیش کیئے ہیں اور مختلف فنون کے اساتذہ کے طور پر اپنے کو منوایا ہے اسی طرح علم نحو میں بھی قوم شیعہ اپنے نامور علماء پر جتنا فخر کرے کم ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ معصومین علیھم السلام نے خود اپنے ماننے والوں کو علم کی ترغیب دی اور یہ ایک ایسا علم ہے جس کے اصولوں اور قوانین کے واضع اول امام علی امیر المومنینؑ ہیں آپ کے علم نحو کے واضع ہونے پر تمام راویوں اور دانشمندوں کا اتفاق ہے آپ نے علم نحو اپنے لائق شاگرد ابو الاسود دوئلی (ظالم بن عمرو،نام والدین کی عطا ہے)کوتعلیم دیا ۔ ابو الاسود جلیل القدر تابعی تھے انہوں نے امام کے فرامین اور اشارات سے بہت فروع نکالیں ۔ ابن ندیم فہرست میں کہتا ہے : قال محمد بن إسحاق زعم أکثر العلماء أن النحو أخذ عن أبی الأسود الدؤلی وان أبا الأسود أخذ ذلک عن أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب علیه السلام۔۔۔ انما سمی النحو نحوا لأن أبا الأسود الدؤلی قال لعلی علیه السلام وقد ألقى علیه شیئا من أصول النحو قال أبو الأسود واستأذنته أن أصنع نحو ما صنع فسمى ذلک نحوا ؛ ابو جعفر ابن رستم طبری نے کہا :اکثر علماء کا خیال ہے کہ علم نحو ابو الاسود دوئلی سے لیا گیا اور اس نے یہ علم امام علی ؑ سے سیکھا...اور علم نحو کو نحو اس وجہ سے کہا گیا کہ ابو الاسود نے امام علی ؑسے جب علم نحو کے اصول سیکھے تو عرض کی :کیا آپ مجھے اس روش پر مزید کام کرنے کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں؟ آپ نے اسکو اجازت دی اسی سے اس علم کا نام نحو ہوگیا ۔ ابن ابی الحدید معتزلی اپنی شرح نہج البلاغہ کی ابتداء میں لکھتا ہے: ما أقول فی رجل أقر له أعداؤه و خصومه بالفضل و لم یمکنهم جحد مناقبه، و لا کتمان فضائله فقد علمت أنه استولى بنو أمیة على سلطان الإسلام فی شرق الأرض و غربها و اجتهدوا بکل حیلة فی إطفاء نوره و التحریض علیه و وضع المعایب و المثالب له و لعنوه على جمیع المنابر و توعدوا مادحیه بل حبسوهم و قتلوهم و منعوا من روایة حدیث یتضمن له فضیلة أو یرفع له ذکرا حتى حظروا أن یسمى أحد باسمه فما زاده ذلک إلا رفعة و سموا و کان کالمسک کلما ستر انتشر عرفه و کلما کتم تضوع نشره و کالشمس لا تستر بالراح و کضوء النهار أن حجبت عنه عین واحدة أدرکته عیون کثیرة ... و ما أقول فی رجل تعزى إلیه کل فضیلة و تنتهی إلیه کل فرقة و تتجاذبه کل طائفة فهو رئیس الفضائل و ینبوعها۔۔۔ و من العلوم علم النحو و العربیة و قد علم الناس کافة أنه هو الذی ابتدعه و أنشأه و أملى على أبی الأسود الدؤلی جوامعه و أصوله من جملتها الکلام کله ثلاثة أشیاء اسم و فعل و حرف و من جملتها تقسیم الکلمة إلى معرفة و نکرة و تقسیم وجوه الإعراب إلى الرفع و النصب و الجر و الجزم و هذا یکاد یلحق بالمعجزات لأن القوة البشریة لا تفی بهذا الحصر و لا تنهض بهذا الاستنباط ؛ ترجمہ:میں اس شخص کے متعلق کیا کہوں جس کے دشمن اس کی فضیلت کے معترف ہیں اور انہیں بھی اسکے مناقب کا انکار کرنا اور چھپانا ممکن نہیں ہے ،تجھے معلوم ہے کہ بنوامیہ اسلامی مملکت کے شرق و غرب پہ مسلط تھے اور ہر حیلے سے انہوں نے کوشش کی کہ اسکے نور کو بجھادیا جائے اور اس کے عیوب کو تلاش کیا جائے اور منبروں پہ اس پہ سب وشتم کیا اور اس کے مدح کرنے والوں کو شکنجے دیےانہیں قید کیا ،قتل کیااور اس کے فضائل کی روایتوں کو بیان کرنے سے روکا حتی اس کے نام پر کسی کا نام رکھنا بھی ممنوع تھا ؛ لیکن ان سب کوششوں کے باوجود ان کا نام بلند رہا اور مسک و عنبر کی مانند ٹھہرا جتنا اس کو چھپاتے ہیں اتنا اسکی خوشبو و مہک پھیل جاتی ہے ،وہ آفتاب کی مانند ہے جسے ہاتھ کی ہتھیلی سے چھپایا نہیں جاسکتا اور دن کی روشنی کی مانند ہے اگر ایک چشم پوشی کرے تو ہزاروں آنکھیں اس کی گواہی دیں۔۔۔میں اس شخص کے بارے کیا کہوں جس کی طرف ہر فضیلت منسوب ہے اور ہر گروہ اس کی طرف منتہی ہوتا ہے پس وہ ہر فضیلت کا رئیس اور سرچشمہ ہے ۔۔۔ ؛ اورعلوم وفنون میں سے ایک علم نحو وعربیت ہے ، سب لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے اس کو ایجاد کیا اور انشاء کیا اوراپنے شاگرد ابو اسود کو اس علم کے جامع اصول تعلیم دیئے جن میں سے یہ ہے : کلام کی تین قسمیں ہیں ؛اسم فعل اور حرف اور پھر کلمہ کی معرفہ و نکرہ میں تقسیم کی اور اعراب کی چار وجہیں بیان کیں: رفع نصب جر اور جزم ۔یہ آپکے معجزات میں سے ہے کیونکہ ایک عادی انسان اس قسم کے ابتکارات اورحصر پیش نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسا خوبصورت استنباط کرسکتا ہے ۔ دیگر شیعہ ماہرین نحو درج ذیل ہیں : 1۔یحییٰ بن یعمر عدوانی م١٢٩ھ. اس نے علم نحو ابو اسود سے سیکھا اسکے شیعہ ہونے کی تصریح ابن خلکان نے کی ،کہتا ہے :کان عالما ًبالنحو ولغات العرب واخذ النحو عن ابی الاسود ۔ ابن قتیبہ نے معارف میں کہا کان عطاء و یحییٰ بعجاٰالعربیة بعد ابی الاسود؛ ابو اسود کے بعد انہوں نے علم نحومیں بکثرت فراخی پیداکی ،ابن ندیم نے فہرست میں لکھا ابو اسود سے نحوسیکھنے والوں میں یحییٰ بھی تھا ۔ 2۔.ابان بن تغلب م١٤١ھ .نجاشی نے کہا۔ کان مقدماً فی کل فنٍ منها الادب واللغةوالنحو اور شیخ طوسی نے بھی فہرست میں کہا ؛کان لغویاً نبیلاً سمع من العرب و حکی عنهم ؛آپ ہر فن مولا تھے ادب و لغت میں فاضل و حاذق تھے عربوں سے سنا تھا اور ان سے حکایت کرتے تھے ،علم نحو میں انکو مہارت تامہ حاصل تھی. 3.حمران بن اعین تابعی م(قرن دوم ): شیخ نے فہرست میں انکے بھائی زرازہ کے ترجمے میں کہا ۔کا ن حمران نحویاً۔ 4.خلیل بن احمد فراہیدی بصری م١٧٥ھ .علم نحو کوبصر ہ و کوفہ میں عروج ملا، اس کی تحقیقات ہوئیں ،اسے حیات نو ملی، اس کی نشر و اشاعت کیلئے مکمل انتظام ہوا۔ ان میں سب سے پہلے شیعہ علماء نے کام کیا ۔بصرہ میں خلیل تھے جو سیبویہ اورتمام بصری نحویوں کے استاد تھے ۔آپ نے علم نحو کو سلجھایا اور اس کے دائرہ کو وسیع کیا ،اس کی علتیں بیان کیں ۔ امام النحو سیبویہ نے خلیل سے سیکھا اور پھر علم نحو کے موضوع پر بے مثال منفرد کتاب لکھ دی ،ابن ندیم کہتا ہے: اخذسیبویه النحومن الخلیل وهو استاذه وعمل کتابه الذی لم یسبقه الی مثله احد قبله ولم یلحقه بعده، اور میں نے ابو عباس کے خط کی تحریر پڑھی: اجتمع علی صفة کتاب سیبویه اثنان واربعون انساناً منهم سیبویه والاصول والمسائل للخلیل؛ بغیتہ الوعاة میں سیبویہ عمرو بن عثمان کے تعارف میں ایسی تحریر لکھی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیبویہ نے ہزار صفحے کی کتاب خلیل کے علم سے لکھی (ہاں، خلیل ایسا استاد ملنا سیبویہ کیلئے غنیمت تھا )۔ ابن انباری کہتا ہے ۔خلیل تمام اہل ادب کا سید و سردار ہے اور علم وزہد و تقوی میں بھی بے مثال ہے ۔نحو کے قیاسات کی تصحیح ،مسائل نحو کو نکالنے اور اسباب وعلل بتانے میں حرف آخر ہے۔اس کے سامنے سیبویہ نے علم کی خاطر زانوئے ادب تہہ کیا ۔اور سیبویہ اپنی کتاب میں خلیل سے بہت کچھ نقل کرتا ہے ۔ خلیل نے سب سے پہلے لغت کی کتاب تدوین کی اور عربوں کے اشعار کی حصر و حد بندی کی سیرافی کہتا ہے:خلیل نحو میں حرف آخر تھے ۔انہوں نے اپنی کتاب العین میں لغت کو احسن انداز میں لکھا اور وہ سیبویہ کا استاد تھا سیبویہ نے ان سے بہت نقل کیا ہے جب بھی نام لیئے بغیر سیبویہ کہے سالتہ یا قال تو انکی مراد اپنااستاد خلیل ہی ہوتا ہے ۔ابن ندیم نے بھی خلیل کو نحو کے مسائل و قیاسات میں حرف آخر قرار دیا ۔ابن خلکان کہتا ہے خلیل علم نحو کا امام ہے پھر حمزہ بن حسن اصبہانی سے نقل کرتا ہے کہ خلیل نے ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا جو خلقت ابتداء کائنات سے اب تک انجام نہ دے سکی ان کی کتاب العین امت نبیﷺ کی لغت کی حد بندی کرتی ہے ۔اورخلیل نے سیبویہ کی علم نحو لکھنے میں ایسی مددکی کہ وہ اسلامی حکومت کی زینت لکھ کر لائے ۔ سیوطی اوائل میں کہتا ہے کہ حروف تہجی کی ترتیب سے سب سے پہلے لغت کو خلیل نے لکھا۔ انکی نحو میں عوامل نامی کتاب تھی (بقول ابن خلکان )،سیوطی نے انکی جمل کتاب بتائی ،اورانکے اور ابن ندیم کے بقول خلیل نے نحو میں شواہد نامی کتاب بھی لکھی ۔ 5.ابو جعفر محمد بن حسن ابن ابی سارہ رءواسی کوفی نحوی امام النحو (قرن دوم ). کوفہ میں امامت نحو کا سہرہ انہی کے سر تھا.نجاشی فرماتے ہیں:هم اهل بیت فضل و ادبٍ وعلی معاذ و محمد فقه الکسائی علم العرب ،انہیں صادقین سے نقل روایت کا شرف نصیب ہوا، یہ معاذ بن مسلم کا چچا زاد تھا یہ گھرانہ فضیلت و ادب کا مالک تھا ۔معاذ و محمد سے کسائی ایسے نحوی نے عربی زبان کا علم حاصل کیا ۔ ابن ندیم فہرست میں کہتا ہے :ان الرءواسی اوّ ل من وضع من الکوفین کتاباً فی النحو یعنی رءواسی کوفیوں میں پہلا ہے جس نے علم نحو کے موضو ع پر کتاب لکھی ۔اور یہی قول ثعلب نحوی نے ابن انباری سے نقل کیا ہے ۔جناب سیوطی کی کتاب المزہر میں ان کی کتاب کا نام الفیصل لکھا گیا ۔ 6.کسائی ابو حسن علی بن حمزہ اما م الکو فیین فی النحو واللغة ١٨٢ھ: کسائی علم نحو کے ماہر اور غریب ِالفاظ کی معرفت میں حد کمال کو پہنچے ہوئے تھے ،بغیة الوعاة میں ہے :قال ابن الاعرابی :کان الکسائی اعلم الناس ضابطا عالما بالعربیة وقال الخطیب :تعلم النحو علی کبر ٍ ،جاء الی قوم وقد اعیا فقال قد عییتُ فقالوا : تجالسنا...ترجمہ:۔ابن اعرابی کا کہنا ہے کہ کسائی علوم ادبیہ کو سب سے بہتر جاننے والا ،قوی حافظے کے مالک اور عربی زبان کے ماہر شخص تھے، خطیب نے کہا :کسائی نے بڑھاپے میں علم نحو سیکھا تھا جب کسی قوم کے پاس گئے، تھکے ہوئے تھے کہنے لگے :قد عییتُ تو انہوں نے کہا آپ ہمارے پاس بیٹھے ہیں اور لغوی غلطی کے شکار ہے،اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ تیری تدبیر ختم ہوگئی تو عییت کہو اور اگر مراد ہے کہ تم تھکے ہوئے ہو تو اعییت کہو تو اسی وقت آپ معاذہراء کے پاس گئے اور تحصیل علم کیلئے انکے سامنے زانوئے ادب تہہ کردیا اتنی زحمت کی کہ علم نحو کے ماہر و حاذق ہوئے بصرہ آئے تو خلیل کے حلقہ درس میں شریک ہوگئے ۔اور ان سے ایک سوال کیا کہ آخر آپ نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا ،انہوں نے جواب دیا : حجاز ،نجد،اور تہامہ کے دیہاتیوں سے ،تو کسائی نے بھی مختلف دیہاتو ں کا چکر لگا یا اور جب واپس لوٹے تو حافظے میں موجود معارف لغویہ کے علاوہ سیاہی کی پندرہ بڑی دواتیں عربوں کے کلام کو لکھتے ہوئے ختم کر ڈالی تھیں ،بصرہ میں آئے تو خلیل فوت ہو چکے تھے اور ان کی جگہ یونس مسند علم پر جلوہ افروز تھے تو دونوں میں علمی مباحث کا آغاز ہوا حتی یونس نے کسائی کے نظریات کو تسلیم کرنے کے ساتھ انکو مسند علم پر متمکن کردیا۔ فراء سے کہا گیا تیرا کسائی سے کیا اختلاف ہے حالانکہ آپ بھی انہی کی طرح عالم ہیں ؟وہ کہنے لگے :مجھے اپنے علم پر ناز تھا تو میں نے کسائی سے ان کا ہم پلہ بن کر بحث کرنے کی کوشش کی مگر میں انکے سامنے ایسا تھا جیسے پرندہ سمندر سے اپنی چونچ میں پانی کے چند قطرے لیئے ہو ۔کسائی اور محمد بن حسن ایک ہی دن فوت ہوئے رشید نے کہا:علم فقہ و علم نحو ایک دن فوت ہوئے ۔انکی علم نحو کے موضوع پر کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :مختصر فی المصادر،المصادر ،الحروف ، 7.معاذبن مسلم ھرَّآء کوفی نحوی صحابی صادقین م١٨٧ھ بغیہ الوعاة میں ہے کہ یہ متقدمین میں سے تھے اور نحو میں انکی تالیفا ت بھی تھیں ۔یہ امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں اور شیعہ مسلک سے متعلق تھے ۔ ابن نجار تاریخ بغداد کے ذیل میں کہتا ہے: کا ن من اعیان النحاة اخذ عنہ ابو الحسن الکسائی وغیرہ یہ علم نحو کے ماہرین میں سے تھے ان سے کسائی وغیر ہ افراد نے علم نحو کی تعلیم حاصل کی فہرست ابن ندیم میں ہے کہ انکی کوئی مشہور کتاب نہیں شاید وہ ان کتابوں سے مطلع نہیں تھے جن کا تذکرہ بغیة الوعاة میں ہوا ہے ۔ 8.قطرب نحوی، محمد بن مستنیر بن احمد٢٠٦ھ سید مہدی بحر العلوم نے انکو اپنے رجال میں ذکر کیامنہج مقال کے تعلیقہ میں بہبہانی فرماتے ہیں کہ ان سے حسن بن محبوب نقل کرتے ہیں ۔انکی کتابوں کے نام ہیں؛علل فی النحو ،اضداد ،ہمز ،مثلث ،مصنف فی اللغة۔ 9.فرّاء یحییٰ بن زیاد اقطع کوفی تلمیذ کسائی٢٠٩ھ سمعانی کہنا ہے کان یقال الفراء امیر المومنین فی النحو، ثعلب کہتا ہے :لولا الفراء لما کانت عربیة لانّه خلصها وضبطها و لولاه لسقطت لانه کان یتنازع فیها ویدعیها کل من اراد علی مقادیر عقولهم فتذهب ؛ بغیتہ الوعاة میں ہے :الفراء اما م العربیتہ کا ن اعلم الکوفیین بالنحو بعد الکسائی ۔ علامہ بحر العلوم طباطبائی نے انکو اپنے رجال میں ذکر کیا اور انکی تشیع کی تصریح ریاض العلماء میں ہوئی ۔ بغیتہ الوعاة میں جو انکو اعتزا ل کی طرف مائل کہا گیا تو شیعہ و معتزلہ کے اصولوں کو خلط کرنے کی وجہ سے ہے حتی ذہبی نے میزان الاعتدال میں سید مرتضی کو معتزلہ کی طرف منساب کیا ہے ۔حالانکہ انکا کوئی تعلق نہیں رہا ۔ 10.احمد بن ابراہیم بن اسماعیل بن حمدون کاتب نحوی ندیمِ متوکل(قرن ثالث) شیخ ونجاشی نے اپنی فہرستوں میں فرمایا :شیخ اهل اللغة و وجههم واستاذ ابو العباس ثعلب؛یعنی یہ جلیل القدر لغویوں اور ثعلب نحوی کے استاد تھے ۔ 11۔ ابن سکیت یعقوب بن اسحاق ٢٤٤ھ . انکی کتاب اصلاح منطق مشہور ہے جس کے بارے مبرد کا قول ہے :ماعبرجسرُبغداد کتاب فی اللغة مثله . 12.ابو عثمان مازنی بکر بن محمد بن حبیب ٢٤٨ھ. بغیتہ الوعاة میں ہے :کان اماماً فی العربیة اور مبردکا قو ل ہے :لم یکن بعد سیبویه اعلم بالنحومن ابی عثمان ۔ ابن ندیم وسیوطی کا کہنا ہے کہ علم نحو میں انکی بہت سی تالیفات ہیں ۔ابن خلکان کا کہنا ہے :کان امام عصرہ فی النحو والادب۔ اور نجاشی فرماتے ہیں :کان سید اهل العلم بالنحو والغریب و اللغة بالبصرة ومقدمهم مشهور بذلک پھر اپنی سند سے مبرد سے نقل کرتے ہیں :کہ علماء امامیہ میں سے تھے اور اسماعیل بن میثم کی اولادکے متعلق تھا پھر انکی تالیفات گنوائی ہیں۔ 13.احمد بن محمد بن خالد برقی٢٧٤ھ انکی نحو کی کتاب ہے ۔ 14.ابو عباس محمد بن یزید مبرّد نحوی ٢٨٥ھ بغیہ الوعاة میں ہے ۔امام العربیتہ فی بغداد فی زمانہ اور انکی کتابوں کے انام یہ ہیں :المقصور و الممدود،الرد علی سیبویہ ،شرح شواہد الکتاب ،ما اتفق لفظہ و اختلف معناہ ،وغیرہ ۔ریاض العلماء میں ہے الامام النحوی اللغوی الفاضل الاقدم صاحب الکامل ،ان سے جو حکایات نقل ہیں وہ انکی تشیع کی دلیل ہیں مثلاًجو فضائل حسنین لواعج الاحزان میں تاریخ بلاذری سے نقل ہیں۔ 15۔ محمد بن احمد بن ابراہیم کوفی معروف صابونی٣٠٠ھ یہ امام ہادی کے صحابی تھے اور انکی کتاب کا نام الفاخر فی اللغةہے اور چونکہ یہ صابن کا کاروبار کرتے تھے ان کا لقب صابونی ہے. 16.ابو بکر محمد بن حسن بن درید ازدی م٣٢١ھ. ابن شہر آشوب نے انہیں معالم میں اہل بیت کے مجاہر شعراء میں شمار فرمایا؛ عبدالرحمن ابن محمد انباری نزھة الاولیاء میں کہتا ہے :کان من اکابر علماء العربیة مقدماً فی اللغہ وانساب العرب واشعارھم ۔انکی جمہرہ فی اللغہ وادب الکاتب کتب ہیں بغیہ الوعاةمیں ہے کہ وہ اس علم کے بلند درجے پہ فائز تھے ۔ ابو طیب کہتا تھا :انتھت الیہ لغة البصریین وکان احفظ الناس و اوسعھم علما تصدر فی العلم ستین سنتہ۔ 17.عبدالعزیز بن یحییٰ جلودی م٣٣٠ھ؛ نجاشی نے ان کی کتاب النحو کا تذکرہ کیا ۔ 18.ابو حسن علی بن محمد عدوی شمشاطی(ماة رابعہ) نجاشی نے ان کی کتب ،المجزیٰ فی النحو،المقصور و الممدود،المذکر و المونث ،ما تشابھت مبانیہ و تخالفت معانیہ فی اللغہ ،المثلث فی اللغہ علی حروف المعجم عمل کتاب العین للخلیل کا تذکرہ کیا ۔ 19.ابو عمر وزاہد محمد بن عبدالواحد تلمیذ ثعلب م٣٤٤ھ ابن انباری کہتا ہے :کان من اکابر اہل اللغہ واحفظھم ،پھر ابی علی سے حکایت کی کہ وہ کہتے تھے کہ وہ نحو و ادب کے راویوں میں سے تھے اس سے بڑھ کر انہوں نے حافظے والا شخص نہیں دیکھا ،ابو عمر زاہد نے اپنے حافظے سے ٣٠ہزار ورق لغت کے املاء کرائے ۔ ابن برھان کہتا ہے :لم یتکلم من الاولین و الآخرین احسن من کلام ابی عمرو الزاهد۔ بغیہ الوعاةمیں ہے :انکی کتب تھیں:شرح الفصیح ،فائت الفصیح ،فائت الجمہرہ ،فائت العین ،ان مستدرکات جیسی لغت میں کتب نہیں لکھی گئیں اور نہ انکی کتب جیسی کسی کتاب کو شہرت ملی ۔انہوں نے مناقب اہل بیت لکھے جسکو ابن طائوس نے مختصر کیا اور سعد السعود میں ابی عمرو زاہد کی کچھ احادیث کو اخراج کیا جو مناقب میں ہیں ۔انکی کتاب شوریٰ بھی تھی جیسا کہ کشف الظنون میں ہے ریاض العلماء نے کہا کہ وہ علماء امامیہ میں سے تھے ۔ 20.حسن بن احمد بن خالویہ نحوی تلمیذ ابن دریدم٣٧٠ھ بغیہ الوعاةمیں ہے :امام اللغہ والعربیہ وغیرھما من العلوم الادبیہ وکان احد افراد الدھر فی کل قسم من اقسام العلوم والادب ،وکانت الرحلة الیہ من الآفاق، دانی انکے متعلق کہتا ہے :عالم بالعربیة حافظ اللغہ،ہمارے علماء نے اس رجال شیعہ میں ذکر کیا حلب میں رہتا تھا اور سیف الدولہ وآل حمدا ن اسکی عزت کرتے تھے ۔اس نے کتاب الآل بارہ ائمہ کے متعلق تحریر کی تو سیوطی کا انہیں شافعی شمار کرنا درست نہیں ۔انکی الجمل فی النحو ،کتاب اللغہ شرح دریدیہ ہے ۔ 21.صاحب ،اسماعیل بن عبادم٣٨٥ھ تلمیذ احمد بن فارس و ابن عمید. انکی لغت میں ١٠ جلدی کتاب المحیط ہے جس سے تاج العروس میں نقل کرتا ہے ۔ 22.حسین بن محمد بن جعفر رافعی معروف خالع(م٣٨٨ھ) معجم الادباء کے مطابق وہ کبیر نحویوں میں سے تھا وہ اما م النحو واللغہ و الادب تھا بغیہ الوعاة میں صفدی سے نقل ہے :کان من کبار النحاة اس نے فارسی وسیرافی سے علم حاصل کیا نجاشی نے انہیں شیعہ مصنفین میں شمارکیا۔ 23.احمد بن فارس لغوی صاحب المجمل (م٣٩٥ھ) بغیہ الوعاةمیں ہے یہ کوفیوں کے طریقے کے نحوی تھے صاحب بن عماد اس کے شاگرد ہوئے اور کہا کرتے تھے ہمارے استاد کو حسن تصنیف نصیب ہوا انکی مسائل فی اللغہ کو فقہاء بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ان سے حریری نے اقتباس کیا ادخال الفقہیة فی المقامة الحربیة ،اسکی المجمل فی اللغة کی مثل نہیں لائی جاسکی ،فقہ اللغہ جس کا نام صاحبی ہے مقدمہ النحو ،اختلاف النحویین ،شیخ نے انہیں فہرست میں امامیہ میں شمار کیا سیوطی کا انہیں شافعی پھر مالکی کہنا صحیح نہیں ۔ 24.شریف مرتضی علم الھدی علی بن حسین موسوی(م٤٣٦ھ) علامہ حلی فرماتے ہیں:متوحد فی علوم کثیرة مجمع علی فضلہ متقدم فی علومٍ پھر ان علوم میں لغت و نحوکے ادبیات کو شمار کیا ہے ۔انکی امالی تفسیر و ادب میں بہت مشہور ہے جو انہوں نے مکہ کے راستے میں لکھی جبکہ وہ حجاج کے امیر تھے ۔ 25.سلّار بن عبدالعزیز دیلمی فقیہ شیعہ۔ سیوطی نے انکو طبقات نحویوں میں شمار فرمایا اور صفدی سے نقل کیا کہ ابو کرام مبارک بن فاخر نحوی انہی کا شاگرد تھا ۔ 26.حسن بن صافی مَلِک ُالنحاة م٤٦٣ھ انہوں نے نحو میں حاوی اور العمدہ کتب تحریرکیں جن کو سیوطی نے ذکر کیا. 27. شریف ابو معمر یحییٰ بن محمد بن طباطبا علوی م٤٧٨ھ. معجم الادباء میں ہے یہ نحوی ادیب فاضل تھے ۔ان سے ابو سعادات ابن شجری نے علم نحو حاصل کیا اور اس پہ وہ فخر کیا کرتے تھے ۔بغیہ الوعاة میں ہے کہ یاقوت کے علاوہ نے انہیں شیعہ کہا ہے 28. محمد بن احمد خازن دار الکتب القدیمہ کرخی م٥١٠ھ. بغیہ الوعاة میں ہے :ابن جوزی نے کہا کہ یہ نحوی ادیب فاضل شیعہ کے فقیہ تھے ۔ 29.ابو الحسن علی بن محمد ابن ابی زید استر آبادی فصیحی ٥١٦ھ .بغیہ الوعاة میں ہے : انہوں نے نحو عبدالقاہر جرجانی سے نحو کا علم حاصل کیا خطیب تبریزی کے بعد نظامیہ کو نحو کا درس دیا پھر ان پہ تشیع کی تہمت لگی اور ان سے سوال ہوا تو کہنے لگے :لا اجحد انا متشیع من الفِرق الی القدم فاخرج ورتب مکانه ابو منصور الجوالیقی ، میں انکاری نہیں ہوں کہ میں سر سے قدموں تک شیعہ ہو ں تو انہیں نکال کر ان کی جگہ ابو منصور کو لگا دیا گیا ۔ 30.بارع دبّاس حسین بن محمد بن عبدالوہاب بن احمد حارثی بِکری نحوی م٥٢٤ھ. بغیہ الوعاة میں ہے :ابن نجار و صفدی نے کہایہ نحوی لغویاور ادب کی وادیوں سے بہترین آشنائی رکھتے تھے . 32.ابو سعادات ہِبتہ اللہ بن علی حسنی علوی معروف ابن شجری م٥٤٢ھ .یاقوت کہتا ہے :کان اوحد زمانه وفرد اوانه فی علم العربیة ومعرفة اللغة انہوں نے ٧٠ سال نحو پڑھی ۔انہوں نے ابن جنی کی اللمع پہ شرح لکھی اور کتاب مااتفق لفظہ و اختلف معناہ ۔انہیں منتجب الدین نے فہرست اور سید علی خان نے درجات رفیعہ میں علماء شیعہ میں شمار فرمایا ۔ 33.ہِبتہ اللہ بن حامد بن ایوب حلی معروف عمید رئوساء م٦١٠ھ .معجم الادباء میں انہیں ادیب فاضل نحوی شاعر کہہ کر یا د فرمایا 34.ابولعباس احمد بن علی بن موکل ازدی مہلبی حمصی عزُّالادیب م٦٤٤ھ بغیہ الوعاة میں ہے ذہبی نے کہا :یہ عراق گئے اور حلہ میں ایک جماعت سے شیعت کو اپنایا اور نحو بغدادودمشق میں حاصل کی اور علوم عربیہ میں ماہر ہوئے اور اس فن میں کتب تالیف کیں۔م٦٤٤ھ 35.ابو العباس احمد بن محمد اشبیلی ازدی معروف ابن حاج م٦٤٧ھ.بغیہ الوعاة میں ہے کہ ابن عبدالملک کہتا تھا آپ متحقق عربی اور حافظ لغات تھے بدر سافر میں فرمایا برع فی لسان العرب حتی لم یبق فیہ من یفوقہ او یدانیہ انہوں کتاب سیبویہ پہ تحقیق کی خصائص ابن جنی کو مختصر کیا اور صحاح پہ نقد کیا ۔ 36.محمد بن حسن استر آبادی معروف شیخ رضی نجم الائمةم٦٨٨ھ. آپ نے علم عربیہ کی فلاسفی اور تعلیلات میں منفرد مقام حاصل کیا اور ابن حاجب کی کافیہ فی النحو کی ایسی تحقیقی شرح تحریر کر گئے کہ اس علم کی ایسی کتاب فلسفہ و تعلیلات نحوی میں تلاش کرنے سے نہیں ملتی ۔آپ نے بعض ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن میں کسی نے سبقت نہیں لی ۔آپ کی کتاب تحقیقات نحوی میں مرجع خلائق ہیں اور بعد میںآنے والے انہی سے نقل اقوال کرتے ہیں ۔شریف جرجانی علی بن محمد نے ایک بہترین حاشیہ بھی انکی کتاب پہ لکھا آپ کی کتاب مکرر طبع ہو ئی ہے ۔ ٣٩.شیخ بہاء الدین عاملی محمد بن حسین صاحب صمدیہ م١٠٣١ھ.انکی صمدیہ انکی ادبی مہارت کا شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے بھائی کیلئے تحریر فرمائی جو آج تک نحو کی متین کتب میں شمار ہوتی ہے اور داخل نصاب ہے ۔شیخ بہائی کی اس مختصر کتاب کو دیکھنے کے بعد مبتدئین بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قوم شیعہ کی مطولات میں کس قدر باریک بینی و اجتہاد کیا گیا ہے