شیعہ کتب رجال کی اقسام اور دانشمندوں کے ابحاث:  ان میں مختلف زاویہ نگاہ سے راویوں کے بارے میں بحث کی : 1) بعض نے صاحبان کتب و اصول شیعہ کو تحریر کرنے والوں کی فہرستیں تیار کیں جن میں شیخ طوسی و نجاشی کی فہرستیں معروف ہیں۔ 2) اور بعض نے ثقہ و معتمد اور ضعیف اور غیر معتبر راویوں کو جدا جدا ذکر کیا جیسا کہ علامہ حلی اور ابن داود حلی نے رجال کی کتب میں لکھا ۔ 3) بعض نے راویوں کے بارے میں ائمہ معصومینؑ کی روایات کو جمع کردیا جن میں سچے اور صادق القول راویوں کی مدح عظیم اور توثیق کی گئی تھی اور ضعیف جھوٹے راویوں کی مذمت اور ان پر لعنت کی گئی تھی جیسا کہ ابو عمرو کشی نے اپنی معرفۃ الرجال میں کیا۔ 4) بعض علماء نے راویوں کے طبقات اور زمانوں کے اعتبار سے ترتیب ذکر کی جیسا کہ رجال برقی اوررجال شیخ طوسی میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی اوراردبیلی نے جامع الرواۃ اور مامقانی نے تنقیح المقال میں اس کو وسعت دی اور آخری دور میں سید بروجردی نے موسوعۃ رجالیہ اور سید خوئی نے معجم رجال میں اس فن کو عروج بخشا ۔ 5) بعض دانشمندوں نے شیعہ راویوں کے خاندانوں کے احوال درج کئے اور ان کے متعلق قابل قدر معلومات جمع کیں جیسا کہ بحرالعلوم نے فوائد رجالیہ میں تفصیل دی اور مامقانی نے مقباس الہدایۃ کے آخر میں اسے نقل کیا۔ 6) بعض نے علم رجال اور راویوں کے بارے میں تحقیق کے جامع اصولوں کی تحقیق کی اور کلیات علم رجال سے متعلق بحثیں کی جیسا کہ شہید ثانی ، کلباسی اور متاخرین کی بہت سی کتابوں کے مقدمات ان علمی بحثوں سے بھرپور ہیں۔ 7) بعض علماء نے اپنی کتب میں بعض کتب حدیث کے راویوں کو علیحدہ طور پر جمع کردیاجیسا کہ موسوعۃ رجالیہ بروجردی میں ہے ۔ 8) بعض علماء نے بعض کتب رجال کی شرح کی اور ان پر نقد و نظر لکھا اور علم رجال کی خدمت کی جیسا کہ قاموس الرجال اس موضوع میں نہایت ماہرانہ تحقیق ہے ۔ 9) بعض نے ثقہ راویوں کو یکجا جمع کرکے ان کو ترویج کیا اور اس علم اور اس کی افادیت کو اجاگر کیا جیسا کہ اب تک اس موضوع پر بعض کتب و رسائل طبع ہوچکے ہیں ۔ 10) بعض نے بعض ثقہ راویوں کے متعلق جامع و مفصل مستقل کتب و رسائل تحریر کئے ۔ 11) بعض نے ضعیف اور غیر معتبر راویوں کے متعلق جامع کتب و رسائل تحریر کئے اور غیر معتبر احادیث کو نشر کرنے والوں کی پہچان کے لیے معتبر مواد لکھ کر اہل اسلام کو ان سے آشنا کرایا جیسا کہ دور قدیم میں ابن غضائری کی رجال اس سے مختص تھی اور علامہ حلی و ابن داود نے انہیں علیحدہ باب میں جمع کیا اور الضعفاء فی الرجال تین ضخیم جلدوں میں اب دار الحدیث قم سے جامع تحقیق طبع ہوچکی ہے ۔ 12) بعض اہل دانش نے حروف تہجی کی ترتیب سے راویوں سے متعلقہ معلومات کو جمع کردیا اور ان میں ہر قسم کے راویوں کے متعلق جامع معلومات کو ذکر کیا اور جیسا کہ مجمع الرجال قہپائی ، جامع الرواۃ ،منہج المقال تستری، نقد الرجال ، حاوی الاقوال، تنقیح المقال ، معجم رجال الحدیث ، قاموس الرجال ۔ 13) بعض اہل قلم نے اس علم کا خلاصہ نکالا اور اسے مختصر کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جیسا کہ خود علامہ حلی کی کتاب اس لحاظ سے بھی قابل دید ہے بلکہ انہوں نے اس کا نام ہی خلاصۃ الاقوال رکھا ، اور الوجیزہ علامہ مجلسی وغیرہ کتابیں اسی سلسلہ میں لکھی گئیں۔ 14) بعض دانشمندوں نے راویوں کے اشتراکات کو حل کرنے کے لیے امتیاز افراد کے کتب تحریر کیں جیسا کہ جامع الرواۃ اور نقد الرجال اور ان کے بعد مبسوط کتابوں میں اس پر کافی کام ہوا ۔ 15) بعض نے حدیث کی کتابوں کی شرح میں سندوں کی تحقیق میں راویوں کی بحث کی جیسا کہ ملا صدرا نے شرح اصول کافی میں اس کا التزام کیا ۔ 16) بعض نے راویوں کی مسانید تیار کیں اور ان کے احوال کو ذکر کیا جیسا کہ اب تک ہشام بن حکم ،ابوحمزہ ثمالی، زرارہ ، محمد بن مسلم ، ابو بصیر ، ابن ابی عمیر وغیرہ کی جامع مسانید شائع ہو چکیں ۔ 17) بعض نے اپنا قیمتی وقت اور قومی سرمایہ اس کام پر خرچ کیا کہ بعض کتب حدیث کی سندوں کو علیحدہ جمع کیا اور ان کی طبقہ بندی کی معجمات تیار کیں جیسا کہ موسوعہ رجالیہ بروجردی اور معجم رجال سید خوئی میں اس کی تفصیل ہے ۔ 18) بعض نے رجالی کتابوں کے حواشی اور علمی مختصر نوٹ تیار کئے جیسا کہ اب تک بہت سی کتب رجال علمی حواشی کے ساتھ طبع ہوچکی ہیں ۔ 19) بعض نے مختلف علوم اسلامی کی تحقیقات میں راویوں کے بارے میں ذیلی طور پر تحقیقات ذکر کیں جیسا کہ علم فقہ و کلام وغیرہ میں مذکورہ روایات کے راویوں کی تفصیل و تدقیق ذکر کی جاتی ہے ۔ 20) بعض نے مستدرکات رجال تیار کیں اگرچہ ان میں اپنے حسن ظن کا اظہار کیا جیسا کہ مستدرک رجال علی نمازی نے لکھی ۔ 21) بعض نے بعض راویوں کے مذاہب اور عقائد کی مستقل تحریر پیش کیں جیسا کہ واقفیوں اور غالیوں وغیرہ کے متعلق مفصل تحقیقات لکھی جا چکی ہیں ۔ 22) بعض نے کچھ کتب حدیث کے مقدمات کی توثیقات عامہ کو لیکر ان کے تمام راویوں کی فہرستیں تیار کیں جیسا کہ کامل الزیارات اور تفسیر قمی کے راویوں کی فہرستیں اصول علم رجال شیخ مسلم داوری میں ذکر ہیں ۔ 23) بعض نے تاریخ علم رجال شیعہ سے متعلق کتابیں لکھیں جیسا کہ طبقات رجال بزرگ تہرانی اور مآخذ شناسی رجال شیعہ رسول طلائیان اس موضوع میں تفصیلی تحقیق ہیں ۔ 24) بعض نے مختلف علاقوں کے راویوں کو جمع کیا جیسا کہ کوفہ ،قم اور سمرقند وغیرہ کے راویوں کے بارے میں تحقیقات پیش ہوئیں۔ 25) بعض نے عامہ کی کتابوں میں شیعہ راویوں کو تلاش کیا اور ان کی فہرستیں تیار کیں جیسا کہ المراجعات عبدالحسین شرف الدین لبنانی اور رجال الشیعۃ فی صحاح ستۃ میں تفصیل ذکر کی ۔ 26) بعض نے ضعیف راویوں کے دفاع کی کوششیں کیں اور معتبر قواعد رجال میں احتمالات کے باب کھول دیئے اور غلو نواز راویوں کے لیے تاویل و توجیہ کرنے لگے اور بعض نے کچھ راویوں کی نقل میں سہل انگاری کو نشانہ بنایا اور بعض نے ضعفاء کی مسانید بنانا شروع کردیں جیسا کہ مسند سہل بن زیاد ایک بڑے مرکز سے شائع ہوئی ۔ 27) بعض ماہرین حدیث نے راویوں کے طویل اسماء کے مختصر رموز تیار کئے اور ان کو اپنی علمی کتابوں کی سندوں میں ذکر کیا جیسا کہ فیض کاشانی نے وافی اور علامہ مجلسی نے بحار میں اس طریقہ کو آزمایا ۔ 28) آخری دور میں جدید ٹیکنالوجی اور کامپیوٹر کی مدد سے بہت سے پروگرام بنائے گئے ہیں جن میں کتب رجال کو جمع کرنے کے علاوہ بعض معروف و جامع کتابوں کی سندوں کی تحقیق بھی کی گئی ہے جیسا کہ درایۃ النور میں کتب اربعہ شیعہ کی سندوں کے ساتھ وسائل الشیعۃ کی سندوں کی تحقیق بھی ذکر ہے اسی طرح اسناد شیخ صدوق میں ان کی کتابوں کی سندوں کی تحقیق کی گئی ہے مگر ان پروگراموں میں جس چیز کی کمی محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ سندوں کی تحقیق میں بعض معروف ضعیف اور غیر معتبر راویوں کو ثقۃٌ علی التحقیق بنانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ نظریہ وسط کو پیش کرنے کی بجائے ایسی طرف داری اچھی نہیں ہے ۔ بہرحال اس علم و دانش میں سینکڑوں کتابوں کا مختلف جہات سے لکھا جانا خود اس کی ضرورت اور افادیت کو بیان کرتا ہے ،مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ اس علم و دانش سے بے توجہی بڑھتی گئی اور اس کے اصولوں اور قوانین کو عملی طور پر جاری کرنے کی بجائے اسے ایک فن اور علم کی حدّ تک محدود کردیا گیا اور کتب حدیث اور جامع کتب روایات کی تنقیح اور تحقیق میں ان کو عملی نہیں کیا گیا بلکہ سمجھ لیا گیا کہ علم رجال کے بارے میں اتنا سرمایہ علمی محض تبرک اور تیمن کے لیے ہے یا فقط مرجحات تعارض کی حدّ تک اس کی ضرورت ہے اور مشہور قضایا اور ذوق قلبی روایات کی نسبت درست کرنے کے لیے کافی ہے اور راویوں کی وثاقت و صداقت کی تحقیق کی بجائے خبر کی وثاقت اور اس پر اطمینان کی اصطلاح رائج ہونے لگی، اس طرح نہ فقط بہت سی جعلی اور ضعیف اور غیر معتبر روایات پر قلبی اطمینان کا دعوی کرنے کی راہ ہموار ہوئی بلکہ کثیر تعداد میں مرسلہ اور بے سند منقولات کو حدیث معصومؑ کے عنوان سے نشر عام کردیا ۔ علم رجال سیکھنے کا آسان و عام فہم طریقہ 29) عرصہ دراز سے علم رجال شیعہ امامیہ کے متعلق مذکورہ بعض زاویہ نگاہ سے تحریر کرنے کے ساتھ یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ اتنی اہمیت اور افادیت رکھنے والے علم کو کس طرح عملی سطح پر پیش کیا جائے تاکہ عوام و خواص سب اس ضروری علم کو سنگین سمجھنے کی بجائے با آسانی حاصل کرسکیں، ایک نہایت آسان قابل فہم روش حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ احادیث معصومینؑ کو نقل کرنے والے راویوں کے صنعتوں اور پیشوں کے بارے میں بحث کی جائے کیونکہ کوئی انسان علم و دانش کے ساتھ اپنی معاش اور اقتصاد کو نہیں چھوڑ سکتا ،اسے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے کسب و کار کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ دنیا کمانے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ اختیار کرنے پر مجبور و مضطر ہوتا ہے لیکن وہ کس پیشہ اور صنعت کو اختیار کرتا ہے ؟یہ مرحلہ انسانی زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہے جس پر حق و باطل کا پورا امتیاز ہوجاتا ہے اگر وہ حلال طریقہ سے کسب معاش کرکے دین کی خدمت کے لیے وقت اور زندگی کا سرمایہ خرچ کرتا ہے تو وہ حق پرست اور کامیاب انسان ہوتا ہے اور اگر وہ دین کو کسب و معاش کا ذریعہ بناتا ہے اور ہر اچھے برے طریقہ سے حرام حلال جمع کرکے دنیا کے مال و دولت کا بچاری بنتا ہے تو وہ شخص نہ فقط دینی طور پر قابل اعتماد نہیں بلکہ وہ انسانی معیارات کے حوالے سے بھی نہایت ذلیل اور خوار شخص بن جاتا ہے ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاءؑ اور اولیاء نے اپنی زندگی میں معاش اور اقتصاد میں کسب حلال کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی اور ان کے ماننے والوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا علمی و عملی اثر لیا اور اپنی معاش و اقتصاد کو حلال طریقہ سے کمایا اور اس کے ساتھ مظلوموں اور نا آشنا لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی وقت نکالا اور ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوگئے اور ان کے نام انبیاء ؑاور اولیاءؑ کے اسماء گرامی کے ساتھ اچھے الفاظ میں ذکر کئے جاتے ہیں لیکن بعض افراد نے زندگی کی مشکلات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور حلال کی کمائی کی زحمت و کوشش کو چھوڑ کر دین اسلام اور ائمہ معصومینؑ کے نام پر مال دنیا کو جمع کرنے کا پروگرام بنایا اور ان کے نام پر جھوٹی حدیثیں بنا کر ان کے معتقدین میں نشر کیں اور ان سے معاوضات لیئے انہیں بدعملی کی چھٹی دی انہیں،انہیں خوش کرکے جنت کی ٹکٹیں دیکر جائیدادوں پر قبضہ کیا ،ایسے دجالوں اور جھوٹے افراد کی علم رجال میں نشاندہی کی گئی اور ان کے جھوٹ اور کذب کو آشکار کیا گیا ۔ کتب حدیث کے بڑھتے حجم کا اندیشہ آپ کو تعجب ہوگا کہ جو لوگ ایسی موذی مرض کا شکار ہوتے ہیں اور دنیا کے مال و منال اور مقام و مرتبے کے لیے خدا و رسولﷺ اور ائمہ معصومینؑ پر جھوٹ بولتے ہیں انہوں نے بہت اندھیر کیا ہے جو احادیث قول ، فعل اور تائید معصومؑ کو نقل کرتی ہیں ان کو معصومینؑ کے زمانہ میں جمع کردیا گیا تھا ان کو مسلسل سندوں کے ساتھ نقل کیا جانا چاہتے تھے لیکن جھوٹوں نے اپنے آپ کو اس مرتبہ تشریع و تقنین شرعی کے مقام پر فرض کرتے ہوئے مسلسل حدیثیں بنانے کا کام جاری رکھا اور اس پر قابل توجہ اضافے کئے۔ اور اس پر احادیث جمع کرنے والوں نے اگر اس علمی روش کے تحت ان سب کو جمع کردیا ہو کہ آئندہ نسلوں کو حقیقت جانچنے کے لیے سب کچھ پیش کردیا جائے تو اپنی جگہ صحیح اور قابل توجیہ کام ہے جس کو ان عظیم شخصیات اور ان کے خلوص و تقوی کی خاطر قبول کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ان سب منقولات کی تصدیق اور ترویج مقصود ہو تو وہ خود بھی آئندہ نسلوں کے سامنے جوابدہ نظر آئیں گے کیونکہ یہ نسل انسانیت اور اس کے فکری تسلسل کے سامنے نہایت اہم سوال ہے جب انسانیت کی ہدایت و نجات کے لیے جامع نظام حیات خدا تعالی کی طرف سے بنا ہے اور نبی اکرمﷺ اور ائمہ معصومینؑ اس کی تفسیر اور تبیین کے لیے معین ہوئے ہیں اور عقلاء عالم اور دانشمندان اسلام اس کو سمجھنے اور اس سے ہدایت لینے کے لیے غور و فکر کرنے کے ذمہ ہیں اور منابع اسلام میں پائے جانے اصولوں اور کلیات سے استنباط اور تفقہ کے پابند ہوئے ہیں تو قرآن کریم کی تفسیر اور سنت معصومینؑ کو نقل کرنے والی احادیث کو بھی معتبر اور معتمد راویوں کے ذریعہ حاصل کرکے ان میں غور و فکر کیا جائے گا ،یہ نہیں کہ ان کے نام پر ہر زمانہ میں احادیث کا اضافہ ہوتا رہے اور سینکڑوں سالوں کے بعد ان کےنام پر توہین آمیز کتب و رسائل بنا لیئے جائیں اور ان کے اعتبار کو ثابت کرنے کے لیے مختلف اہل دانش کے حوالے اور بیانات سجا دیئے جائیں اور خوبصورت اوراق اور جلدوں میں ان کو اہل عقل و دانش کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کے بارے میں اٹھنے والے شبہات و صریح اعتراضات کو بے دینی اور انکار کا رنگ دے دیا جائے ۔ 

راویوں کے پیشوں کی تحقیق کے فوائد و امتیازات: ہرگز نہیں ! پہلے ہم راویوں کے پیشوں اور صنعتوں کو ذکر کرتے ہیں تاکہ؛ 1) اب جو علم دین کی نشر و اشاعت کو ایک خاص طبقہ سے مخصوص سمجھ لیا گیا اور وہ جس چیز کو چاہیں معتبر کریں اور جس کو چاہیں ضعیف اور غیر معتبر کریں یا مختلف ذوق اور سلیقہ اور اقوال و انظار کا بہانہ کرکے اسے علم و دانش کا نام دیا جائے ۔ 2) یا اہل عقل و دانش کا کثیر طبقہ قرآن و سنت معصومینؑ کے بہترین قیمتی موتیوں میں غور کرنے سے محروم ہو ۔ 3) یا کوئی اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے اپنی اقتصادی اور معاشی مشکلات کا بہانہ کرکے اپنے دین و مذہب کے قیمتی سرمایہ میں غور کرنے سے محروم ہوجائے اور اپنی روح اور نفس کے تکامل کی راہیں طے نہ کرسکے اور سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ کرسکے ۔ ان سب باتوں کا علاج اس آسان طریقہ سے معصومینؑ کی احادیث اور فرامین کو نقل کرنے والوں کی صنعتوں اور پیشوں کے بارے میں بحث کرنا ہے ،جب یہ بحث مکمل ہوجائے تو راویوں کے احوال اور کوائف کا خلاصہ ،اہل عقل و دانش اور منصف مزاج قارئین کے سامنے ہوگا اور ان کی منقولات کا اجمالی طور پر احاطہ کرسکیں گے ۔ خدا کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنی توفیقات اور اہل عصمت کی نظر کرم سے نوازا اور یہ قوت بخشی کہ اس دور میں بنیادی علوم کے احیاء اور اہل دین و مذہب کی خدمت کی جائے جس کی پوری قدر و قیمت بعد والی نسلیں پہچان سکیں گی اور اہل زمانہ کو معاصرت کے دبیز پردے حائل ہوسکتے ہیں ورنہ اس گوہر بہا قیمت میں خلوص اور حق نمائی کی کوئی کمی نہیں، مگر ظرف قابل کو حق کے سامنے جھکنے کی توفیق و قابلیت بھی شرط ہے جس کا اظہار و اقرار، اس عظیم الشان حقیقت کے منسوب ہونے کی وجہ سے زمانہ حال کے تقاضوں کے مطابق بہت سوں کو میسر نہیں، جس کے اسباب اور علل اور ان کے نتائج اور انجام پر بحث کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ بہرحال خدا تعالی سے بحق اہل عصمت ،دعاء ہے کہ اس محنت کو اپنے دین مبین کی خدمت اور اس سے عموم مومنین و مسلمین کو استفادہ آسان قرار دے اور اسے میرے لیے ذخیرہ آخرت اور علم و دانش سے تشنہ و طلبگار پاکیزہ دلوں کی سیرابی کا ذریعہ بنائے آمین۔