فقہ کا مفہوم لغت کی اکثر و بیشتر کتابوں میں فقہ کا معنی علم و ادراک اور فہم و فراست سے کیا گیا ہے لیکن جن ماہرین لغت نے علم و ادراک اور فقہ کے آپس میں جدالفظ وضع ہونے کی بحث کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ فقہ ہر قسم کے علم و ادراک کو نہیں کہا جاتا بلکہ فقہ ، دقت کے ساتھ حاصل ہونے والے علم کو کہتے ہیں ۔ راغب اصفہانی کا بیان ہے: ظاہری علم کے ذریعے پوشیدہ چیز کے علم تک پہنچنا فقہ ہے پس فقہ کا دائرہ ،علم کی نسبت خاص ہے ۔ ابوہلال عسکری کا کہنا ہے:فقہ اور علم میں فرق یہ ہے کہ فقہ کسی کلام کا وہ علم ہے جو تامل اور غور و فکر سے حاصل ہو ، اس لیے خدا کے نہیں کہا جاتا کہ وہ فقیہ ہے کیونکہ اس کے غور و فکر کرنے کا معنی نہیں ،لیکن آپ اپنے مخاطب سے کہتے ہیں:جو میں کہہ رہا ہوں اس کو تونے اچھے طریقے سے سمجھ لیا اور فقہ کلام کے معانی کو دقت سے سمجھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے آیت میں ہے: وہ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔ شہید مطہری نے فرمایا:بعض اوقات ہمارے پاس ابتدائی اور عمومی معلومات ہوتی ہیں اور بعض اوقات دقیق معلومات جیسے اقتصادیا ت کے بارے میں قیمتوں کے اتار چڑھاو سے اکثر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس چیز کی مانگ زیادہ ہے لیکن وہ بازار میں ضرورت سے کم موجود ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان مسائل میں دسترس رکھتے ہیں اور اس کے حقیقی اسباب کو جانتے ہیں کہ کن وجوہات کے بسبب قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس میں کس حد تک حقیقت ہے اور کس حدّ تک مفاد پرست لوگ ان حالات سے استفادہ کررہے ہیں تو جب کسی شخص کا علم اقتصادی مسائل میں عمومی اور ابتدائی معلومات سے بڑھ کر حقیقی اسباب تک پہنچ جائے تو وہ اقتصاد میں متفقہ کہلائے گا ۔ اصطلاح قرآن و سنت میں فقہ کی دو اصطلاحیں ہیں؛ فقہ اکبر اور فقہ اصغر، اور بیشتر موارد میں اسی پہلے معنی میں استعمال ہوا لیکن بہت سے موارد میں دوسرے معنی بھی استعمال ہوا ہے ۔ فقہ اکبر سے مراد اسلام کے تمام معارف کا علم ہے جو اسلامی منابع میں غور و فکر سے حاصل کیا گیا ہو ،اس میں اعتقادات اور اصول دین سےآشنائی حاصل کرنا اور اخلاقیات اور شرعی احکام سے آگاہی حاصل کرنا سب شامل ہیں اور اسلام کی نگاہ میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے دین کے معارف اور تعلیمات کو بصیرت اور دلیل کے ساتھ سمجھیں ۔ فقہ اصغر کا معنی سابقہ معنی کی نسبت دائرہ کے لحاظ سے محدود ہے اس میں احکام شرعیہ اسلامیہ کو اچھی طرح سمجھنا اور ان کو دلیل و بصیرت کے ساتھ حاصل کرنا شامل ہے اور بہت سی روایات میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ • شبیب بن انس کا بیان ہے کہ امام صادقؑ نے ابوحنیفہ سے پوچھا: کیا تو عراق کا فقیہ ہے؟ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا:تو لوگوں کو کس چیز کے ذریعے فتوی دیتا ہے؟... ۔ اس حدیث میں امام نے فقیہ اور اس کے فتوے کے بارے میں کلام فرمایا ہے ،اس سے فقہ کا اصطلاحی خاص معنی مراد ہے ۔ سعید بن قتادہ کا بیان ہے: عمر بن خطاب نے حق مہر کو چارسو درہم سے زیادہ کرنے سے منع کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اس نے سورت نساء کی آیت 21 سے ثابت کیا کہ وہ فتوی صحیح نہیں تو انہوں نے کہا: تم میں سے ہر ایک عمر سے زیادہ فقیہ ہے اور خطبے میں اعتراف کیا کہ ایک عورت نے مجھ پر حجت تمام کی کہ جتنے حق مہر پر مسلمان راضی ہو، جائز ہے ۔ اس عبارت میں ظاہر ہے کہ خلیفہ ثانی کی مراد احکام دین کو جاننے میں فقیہ تر ہونا ہے ۔ • ابان بن تغلب کابیان ہے کہ امام باقر ؑسے ایک مسئلہ پوچھا گیا آپ نے جواب دیا تو سوال کرنے والے نے عرض کی :فقہاء اس طرح کہتے ہیں ... ۔ اس حدیث میں فقہ اپنے خاص معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسی حوالے سے اس زمانے کے ان دانش مندوں کو فقہاء کہا گیا ۔ علم فقہ کی تعریف علوم اسلامی میں ایک اہم ترین علم ،علم فقہ ہے اس میں احکام شرعی کے مدارک و منابع سے ان احکام کو دلیل کے ساتھ استنباط کیا جاتا ہے ،صاحب معالم اس کی تعریف میں فرماتے ہیں: اصطلاح میں فقہ ، تفصیلی دلیلوں سے شریعت کے فرعی احکام کو جاننے کا نام ہے ۔ اس طرح اس تعریف میں دین کےان مسائل کا علم داخل نہیں ہوگا جو فروعات سے متعلق نہیں جیسے توحید و نبوت و قیامت کی ابحاث ، اور اسی طرح دلیل تفصیلی سے احکام کو سمجھنے کی قید سے مقلّد کا علم خارج ہوجائے گا کیونکہ وہ اگرچہ احکام شرعی کو جانتا ہے لیکن وہ مجتہد کی پیروی میں ہوتا ہے اس کے پاس تفصیلی دلیل نہیں ہوتی۔ شہید صدر فرماتے ہیں: علم فقہ شریعت اسلامی میں ہماری عملی ذمہ داری کو استدلال کے ساتھ بیان کرتا ہے ،اس علم میں فقیہ زندگی کے ہر عمل کے بارے میں وظیفہ انسانی کو معین کرتا ہے ...اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ علم فقہ شرعی احکام کے استنباط کا علم ہے ۔